رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور مسلم علماء کونسل کے چیئرمین عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے ایکسپو دبئی 2020 کے مرکزی ہال میں منعقدہ ”فروغ امن فورم “کے افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔فورم کا عنوان ”جامع شہریت مشترکہ وجود سے باہمی شعور تک “تھا اور جس کی سرپرستی وزیر خارجہ وبین الاقوامی تعاون عزت مآب شیخ عبد اللہ بن زاید آل نہیان نے کی۔فورم میں میثاق مکہ مکرمہ میں جامع شہریت کی اقدار اور اصولوں کے قیام کی مرکزیت کو اجاگر کیا گیا جہاں جامع شہریت کا ایک روشن تناظر پیش کیا گیا ہے اور یہ تاریخی دستاویز خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہ اللہ کے زیر سرپرستی اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد ا لعزیز حفظہ اللہ کے تعاون سے تیار ہوا، اور اس دستاویز کی تائید مکہ مکرمہ میں جملہ مسلمانوں کے قبلہ کعبہ مشرفہ کے زیر سائے رمضان المبارک 1440 بمطابق 2019 کو 1200 سے زائد علمائے کرام اور مفتیان عظام اور 4500 سے زائد اسلامی مفکرین نے کی۔
فورم کا افتتاح متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے رواداری وبقائے باہمی عزت مآب شیخ نہیان بن مبارک النہیان نے کیا جوکہ 7 دسمبر تک جاری رہے گا جہاں انہوں نے رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو فورم کے افتتاحی تقریب کے مرکزی مقرر کی حیثیت سے خوش آمدید کہا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ آج ہم جامع شہریت کے موضوع پر تبادلۂ خیال کے لئے جمع ہوئے ہیں اور یہ اجتماع انسانیت کے مستقبل کے لئے اعتماد اور امید کا اہم اظہار ہے،اور حاضرین کی ایک دوسرے کو جاننے،مکالمہ اور مفاہمت کی اقدار کے فروغ اور مشترکہ مقصد میں دلچسپی کا اظہارہے۔اسی طرح لوگوں کے درمیان روابط جوڑنے اور بقائے باہمی کے چینلز کی حمایت ہے ،اور یہ انسانیت کے شعور کو بڑھانے،ان کے علم ومعرفت اور صلاحیتوں اور طرزعمل کو بہتر بنانے میں آپ بلکہ ہم سب کے کردار کی توثیق ہے بلکہ اسے اپنا کردار اداکرنے کے قابل بنانے اور حال کی تشکیل اور مستقبل کی تعمیر کرنا ہے۔
اس کے بعد رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور مسلم علماء کونسل کے چیئرمین عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسی نے خطاب کیا۔انہوں نے اپنے خطاب میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ جامع شہریت کا موضوع اپنے مشترکہ مذہبی وثقافتی اقدار اور انسانی اقدار اور اس کے عمومی فطری قانون، دفعات اور اس کے عمومی اور خصوصی آئینی اصول ،قوانین، چارٹرز اور بین الاقوامی اصولوں پر مبنی ہے، یعنی یہ مقامی طور پر ملک کے اندر تمام حقوق اور واجبات کے ساتھ منصفانہ مساوات کے تمام تقاضوں کے مطابق مساوی مواقع کے حصول کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کررہنے کا نام ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اگر جامع شہریت کو عالمی تناظر میں دیکھاجائے تو وہ اس کرۂ ارض کے انتظام اور تحفظ کے لئے انسانی شراکت داری ہے جس کاخلیفہ اللہ تعالی نے ہمیں مقررکرکے اس میں مساوات اور اس کے جامع مفہوم کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے، اور یہ صرف انسانی خاندان کے حقیقی معنوں میں اس کی مشترکہ اقدار قوانین اوراصولوں کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے کہاکہ جامع شہریت کا پہلا مفہوم قومی ریاست کی طرف سے تحفظ اور اقدامات ہیں جس میں سب کو کارکردگی پر اس کا صلہ ملتاہے بلکہ اس کارکردگی کو پہلے اللہ تعالی کے ہاں تولاجاتاہے پھر بندوں کے پاس، جبکہ اس کا دوسرا مفہوم بھی ہے جس میں نیک قوتوں کی طرف سے مخلصانہ اور مؤثر کاوشیں شامل ہیں جس کا آغاز اقوام کے درمیان باہمی تعلقات کے فریم ورک سے ہوتاہے یا عالمی نظام کے فریم ورک میں اس کے تمام ادارہ جات اور تنظیموں کے ساتھ مل کر ہوں جو بین الاقوامی قوانین ،کنونشنز اور اصولوں کے تحت تشکیل دیئے گئے ہوں۔لیکن جب جامع شہریت کی بات آتی ہے تو اقدار اور اصولوں کے جائزے اور اس سے متعلقہ دیگر تفصیلات کی طرف بات چلی جاتی ہے،اور یہ سب بالکل واضح ہیں اور ہمیں اس میں مزید تفصیل اور مبالغہ آرائی کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ ایک مخلصانہ اور مؤثر ارادے کی ضرورت ہے جو ہمیں عزیمت کی راہ پرڈالے جہاں ہمارے اعمال ہماری باتوں کی تصدیق کریں۔اور جب تک معاملہ ایساہے جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں ہمیں سب سے پہلے ہمیں جامع شہریت کے چیلنجز اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لے کر راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے، اور پھر اس کے بعد مستحکم ضمانتوں کے ساتھ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اور یہ عمل صرف اقدار اور اصولوں کو یاد دلانے اور دیگر تفاصیل سے کہیں بہتر ہے۔ جی ہاں! یاد دہانی اہم ہے مگر اس سے اہم اس پر عمل کرناہے اور عمل سے بھی زیادہ ضروری اس کو نافذ کرنے کی اخلاقیات ہیں۔مثال کے طور پر ایک ہی نص کو ہر ایک اپنے خواہشات کے مطابق دائیں اور بائیں لے جاتاہے اور ہر ایک کا یہ دعوی ہے کہ وہ حق پر ہے۔آج ہمیں ہر جگہ ایک گروہ نظر آتاہے جو واضح اور کھلے مقاصد کے لئے سیاست کرتاہے اور اس تناظر میں نظریاتی انتہاپسندانہ رجحانات ہیں۔اور جیسا کہ میں نے کہاکہ وہ دہائیوں سے بلکہ صدیوں سے موجود ہیں اور انہوں نے متعدد مباحثوں میں مفاہمت کی منطق اور مکالمہ کی اخلاقیات سے تجاوز کیا ہے جس میں اقوام اور ممالک کے درمیان روابط کا ادب بھی شامل ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ اس غیر انسانی عمل کو ہرگز اللہ تعالی کی طرف سے پائیدار کامیابی نصیب نہیں ہوتی ہے اور حالیہ تاریخ اور ماضی قریب اس کی شاہد ہے اور یہ اور اس طر ح کے دیگر حالات ایک مکمل جواب کی طالب ہیں، جب کہ اس کا جواب جامع شہریت کے موضوع کے تمام پہلوؤں کے جائزے میں پنہاں ہے، خاص طورپر مذہبی اور ثقافتی اور عمومی طورپر آئینی خصوصیت کے مفہوم کواجاگر کرنا، اور یہ ہر ملک کے قومی ضمیر کا اظہار ہے، اور ان سب کی اہمیت کو بیان کرنا،اور اس کے ساتھ مخصوص شناخت کا احترام کرنا، اور یہ ان کی مذہبی اور ثقافتی خصوصیت کے ساتھ جو کہ ان کے مروجہ قومی جذبات کی ترجمان ہیں ان کی قومی خود مختاری کا احترام ہے،اور ان کے اس حق پر جسارت کرنا ایک مکروہ ڈکیتی شمار ہوگی، اس لئے ہمیں جامع شہریت پر وسیع تناظر میں مکالمہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایک ایسی جہت بھی موجود ہے جو اس کی تفصیلات اورکڑیوں سے ناواقف ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں جامع شہریت ایک قومی اور عالمی تقاضہ ہے جس کے لئے اس کی تمام تفاصیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس میں ہر ملک کی قوانین اور ثقافت میں اس کی خود مختاری کوتسلیم کرتے ہوئے اس کی آئینی اور قانونی اختلافات کو مدنظر رکھنا ہوگا،جب کہ بین الاقوامی قوانین اوراصول اور مشترکہ انسانی اقدار کا احترام سب کے لئے ضروری ہے ۔
ڈاکٹر محمد العیسی نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ ان اختلافات کو اس کی تفاصیل کے ساتھ سمجھنے کے بعد یہ مشکل ہے کہ ہم ایک لائن کھینچیں اور کہیں کہ جامع شہریت کا یہی معنی ہے اور اس کے علاوہ ہر تصور اس مفہوم سے خارج ہے،اس لئے ہم کہتے ہیں اور اس بات کو دہراتے ہیں کہ نظریات اور احکام پر حکم لگانے سے قبل ہر ملک کی خود مختار اقدامات کی خصوصیت کے تناظر میں اس کے حالات اور اس کی مذہبی اور ثقافتی پس منظر کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
ڈاکٹر العیسی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہاکہ شاید میں جامع شہریت کے مسائل میں سے ایک پر روشنی ڈالوں جس نے بہت نقصان پہنچایا ہے اور آج بھی ہمیں اس نسل پرستی اور اس کی جہالت کا سامناہے اور یہ صرف پسماندہ ممالک میں نہیں پھیل رہی ہے بلکہ ان ممالک میں جڑ پکڑ رہی ہے جو درجہ بندی میں پہلی دنیا میں شمار ہوتے ہیں۔اور جب آپ اس تہذیبی پسماندگی کی وجہ تلاش کرتے ہیں تو آپ اسے اکثر ایک ہی چیز میں پاتے ہیں جو تعلیم میں گمشدہ کڑی ہے۔جی ہاں! وہ تعلیم جس میں تعلیم کے لئے تو تمام وقت مختص کیا جاتاہے مگر اس میں تربیت کے لئے کوئی وقت مختص نہیں کیا گیا ۔اس لئے اس نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہوکر وہ ایک بڑا سائنس دان تو بن جاتاہے مگر مذہبی، قومی اور انسانی اقدار سے خالی رہتاہے ،یا ہم متفقہ طور پر یہ کہیں کہ وہ مشترکہ انسانی اقدار سے محروم رہتاہے۔اس لئے جس نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنائے جس سےانسانی وجود کو خطرہ ہے،اس سائنس دان نے علم تو حاصل کیا مگر اقدار نہیں سیکھے۔اسی طرح اقدار کو مستحکم کرنے میں خاندان کا کردار بھی اہم ہے جس کی طرف ہم نےاشارہ کیا ہے کیونکہ نوجوانوں کی ذہن سازی کا سب سے اولین مرکز یہی ہے۔
دریں اثنا ڈاکٹر محمد العیسی نے توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ میثاق مکہ مکرمہ جو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہ اللہ کی سرپرستی اور ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کے تعاون سے تیار ہوا، اور جس کی حمایت اسلامی ممالک نے نائجر کے شہر نیامے میں منعقدہ اپنے وزارتی اجلاس میں کی ، اس دستاویز کی بائیسویں شق میں جامع شہریت کے بارے میں ایک روشن تناظر پیش کیا گیا ہے، اور اسی دستاویز میں خواتین کومشروع طور پر مکمل بااختیار بنانے کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے اسے جامع شہریت کا ستون قراردیاہے۔
ڈاکٹر العیسی نے مزیدکہاہے کہ رابطہ عالم اسلامی نے قومی اقدار کے فروغ کے لئے یورپ سے مہم کا آغاز کیا ہے جس کے اہداف میں سے سرفہرست ان ممالک میں رہنے والوں کو مقامی آئین قوانین اور ثقافت کے احترام سے متعلق آگہی فراہم کی جائے، چاہے وہ ان ممالک کے شہری ہوں یا وہاں مقیم ہوں۔ اور یہ سب مذہبی اور قومی شناخت کے درست فہم کے تناظر میں ہے کہ مذہبی تشخص اور قومی تشخص ایک دوسرے سے متصادم نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل ہیں،اور یہ شرعی تقاضہ کے پیش نظر ہے جس میں آمن وہم آہنگی کا مطالبہ ہے ۔اور مذہب کسی طور پر معاشرتی امن وسکون اور قومی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیتاہے بلکہ وہ تو عہد وپیمان کی تکمیل،دلوں کو جوڑنے اور مصالح ومفاسد کی رعایت کا حکم دیتاہے۔اور معاملات کو شرعی بصیرت اور دانش مندی کے ساتھ آئین وقانون کےدائرے میں رہتے ہوئے امن وسکون کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔اور اس کے ساتھ نام نہاد سیاسی اسلام کے نظریات سے خبردار رہاجائے کیونکہ وہ مقاصد شریعت سے نکل کر اس عظیم مذہب کے نظریات کو اپنے تنگ نظر سیاسی مقصد تک محدود کرتے ہیں اور اپنے انتہائی خطرناک خیالات کو مذہب کی طرف غلط طور پر منسوب کرتے ہیں۔اس طرح وہ مسلمانوں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور دوسری طرف غیر مسلموں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں جو ان نظریات کو اسلامی نظریات گمان کررہے ہوتے ہیں ۔خاص طور پر ان گروہوں کے عمل سے جو نقصان ہوا یا جو ہورہاہے، نفرت کا عروج،مشرق اور مغرب کے درمیان ٹکراؤ اور تہذیبی تصادم ، اور پھر تشدد اور دہشت گردی کی طرف ابھارنا،یہ اعمال اسلاموفوبیا کی متعدد اسباب میں سر فہرست ہیں۔
ڈاکٹر العیسی نے اپنے خطاب کے اختتام پر متحدہ عرب امارات کے 50 ویں قومی دن پر مبارکبادپیش کرتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے امارات کی خوشحالی اور پائیدار ترقی کے لئے نیک خواہشات کااظہار کیا۔
فروغ امن فورم کے صدر عزت مآب شیخ عبد اللہ بن بیہ نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ شہریت صرف مساوی حقوق اور فرائض پر مبنی نہیں اور نہ ہی صرف قانونی تصور پر مبنی ہے بلکہ اقدار کی ٹھوس بنیاد کے بغیر اسے مستحکم نہیں کیا جاسکتاہے۔تربیت سے پیدا ہونے والی اقدار سے شہریت بھائی چارہ تک کا سفر طے کرتی ہےاور مشترکہ وجود سے باہمی شعور تک ترقی کرتی ہے تاکہ شہریت ایسا رشتہ ہو جس میں تمام وابستگیاں مستحکم ہوں اور معاشرے کے تمام عناصر کے درمیان ہم آہنگی قائم ہو اور سب اس میں اپنا مطلوبہ مقام حاصل کریں۔
شیخ بن بیہ نے مزیدکہاکہ شہریت کے تصور میں عصر حاضر کے مکمل اثرات کو تسلیم کرنا ضروری ہے اور اس کے انکار کا لازمی نتیجہ ناکامی اور ممکنہ طور پر فتنوں کا باعث بنتاہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جامع شہریت کے موضوع پر میثاق مکہ مکرمہ کے مندرجات کی تعریف کی ۔آپ علمائے کرام کے اس وفد کے ساتھ تھے جنہوں نے میثاق مکہ مکرمہ کا نسخہ خادم حرمین شریفین حفظہ اللہ کو پیش کیا تھا۔
فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزارت مذہبی امور کے وزیر عزت مآب شیخ نور الحق قادری نے کہاکہ فورم کا موضوع اہم ہے کیونکہ شہریت شاید استحکام ،سلامتی اور ترقی کی راہ کی سب سے اہم کڑی ہے۔انہوں نے اس اہم مقصد کے حصول کے لئے متعدد خیالات بھی پیش کئے۔
اس کے بعد کانفرنس کے دیگر سیشنز کا آغاز ہوا جو متعدد موضوعات پر مشتمل تھے اور اس میں متعدد اسلامی اور غیر اسلامی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مفکرین نے بھی شرکت کی۔