رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل ، محترم ڈاکٹر شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے برطانوی اخبار ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا: امت کے علماء کی مدد سے طالبان اعتدال کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
انکے مضمون کا عنوان تھا ” مسلم علماء طالبان کو اعتدال کی جانب رہنمائی کر سکتے ہیں ” بلا شبہ امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج 20 سال تک افغان میں برسرپیکار رہی لیکن اسے ایسے ضروری مذہبی اتھارٹی کی تلاش میں ناکامی ملی جو اسلامی شناخت کا معتدل نسخہ پیش کرتی ، وہ شناخت جسکے دفاع کا دعوی تنظیم طالبان کرتی ہے ۔
انکا خیال ہیکہ ” بیشتر افغان مذہب سے جڑے ہوئےہیں ” یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ یہی وہ طاقت ہے جسکا استعمال طالبان نے اپنی تنظیم کی تعمیر اور اپنےجھتوں کو مضبوط کرنے اور اامریکی حمایت یافتہ حکومت کا متبادل پیش کرنے میں کیا “
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “طالبان کو ایک معتدل مستقبل کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے مذہب سب سے طاقتور قوت ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کو طالبان کی حکومت سے معاملات کرتے وقت اپنی اجتماعی مذہبی اتھارٹی سے فائدہ اٹھانا چاہئے”۔
انہوں نے کہا کہ 20 سال پہلے جب امریکہ نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا ، تو طالبان نے اسے اسلامی تعاون تنظیم کی زیر نگرانی عدالت میں بھیجنے کی تجویز دی تھی ، یہ 57 ممالک پر مشتمل ایک اسلامی ادارہ ہے۔ بش انتظامیہ کے انکار کے باوجود طالبان تنظیم پر اپنے اعتماد کے بارے میں بیانات دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا اس طالبان پر اثر انداز ہو سکتی ہے ، جو اپنے مقاصد کو ایمان سے جوڑتے ہیں (جیسا کہ وہ اسے سمجھتے ہیں)۔
انہوں نے کہا ، “بہت سے مسلم ممالک نے اسلامی علمی دلائل کے ذریعے جدیدیت کے چیلنجوں کو اپنے عقائد کے ساتھ متوازن کرنا سیکھا ہے، اس ضمن میں 1200 ممتاز مسلم مفتیوں اور علماء کی طرف سے توثیق شدہ مکہ اعلامیہ کو رواداری پر مبنی اسلام کو فروغ دینے کے لیے جاری کیا گیا۔”
انہوں نے مزید کہا ، “رابطہ عالم اسلامی – جو دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری مسلم تنظیم ہے – نے طالبان پر زور دیا کہ وہ اس اعلامیے پر عمل کریں۔ اس نے ایک امن کانفرنس کا انعقاد بھی کیا جس میں افغان اور پاکستانی علماء نے حقیقی اسلامی اقدار پر مبنی امن کے مشترکہ نظریات کو فروغ دینے کے لئے ایک مشترکہ کمیٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “یہ بات چیت افغانستان میں ذمہ دار حکومت کی حمایت کے لیے جاری رہنی چاہیے۔ طالبان کے عقائد کچھ بھی ہوں ، وہ بین الاقوامی اعتراف اور فنڈنگ کے لئے کوشش جاری رکھیں گے ۔”
انہوں نے مضمون کے آخر میں نوٹ کیا کہ افغانستان کو بھوک ، ممکنہ شورش اور بڑے پیمانے پر بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ چنانچہ طالبان پر لازم ہیکہ وہ سنے،اور کچھ چیزوں میں دستبرداری بھی اختیار کرے،ورنہ انکی حکومت ناکام ہو جائیگی ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے مسلم علماء کے پاس افغانستان کو ایک پرامن ملک بنانے کا ایک انمول موقع ہے۔”