– مذہبی اعتدال کی اقدار کو راسخ کرنے کے میدان میں مملکت سعودی عرب ایک الہامی عالمی پلیٹ فارم ہے
-انتہا پسندی ایک نظریہ پر مبنی ہے نہ کہ ایک خالص سیاسی وجود یا فوجی طاقت پر۔
– دہشت گردی کے خلاف فوجی مزاحمت ضروری ہے ، لیکن فکری اور علمی مقابلہ زیادہ ضروری ہے
– – 85 فیصد دہشت گرد تنظیموں کے جنگجو اس مواد سے متاثر ہیں جو مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لئے تیار کئے جاتے ہیں ۔
– انتہا پسندی سرحدوں کو عبور کرنے اور اپنے پیغامات آسانی سے پہنچانے کے لئے ورچوئل ورلڈ ٹکنالوجی کا استعمال کرتی ہے
رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل ، چئر مین مسلم علماء کونسل عزت مآب شیخ ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم عیسیٰ نے یقین دہانی کرائی کہ انتہا پسندی نہ ہی خالص سیاسی ڈھانچہ یا فوجی قوت پر قائم ہوئی ہے بلکہ وہ ایسے نظریہ پر قائم ہوئی جو ضروری فکری اور علمی مقابلہ کی عدم موجودگی میں خو د کو فروغ دینے میں کامیا ب ہوگئی ، لہذا انتہا پسندی شعو ر سے عاری مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، سیاسی تنازعات کے ان علاقوں میں جہاں انکے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، کچھ نوجوانوں کو اغوا کرنے میں کامیاب رہی ۔
یہ باتیں انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے مرکز برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز “NESA” کے سینئر عہدیداروں کے سامنے، پیغام کو پہنچانے اور اپنا گرویدہ بنانے میں انتہاپسند تنظیموں کی مہارت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہیں ۔
اس لیکچر میں دنیا بھر میں پرتشدد انتہا پسندی کے نتائج کا جائزہ لینے پر روشنی ڈالنا ، اور انتہا پسندی کے متشدد رجحانات سے نمٹنے میں ان کی تمام سرگرمیوں میں قومی معاشروں کے کردار کا تجزیہ کرنا شامل تھا۔ محترم ڈاکٹر العیسی نے پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے مسلم ورلڈ لیگ کے تجربے ، اور خاص طور پر اس سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات ، خاص طور پر فروری 2020 ء میں لیگ کے ذریعہ منعقد اور جنیوا میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے زیر اہتمام کانفرنس کے نتائج کو پیش کیا ۔ ، اور یہ بھی واضح کیا کہ اس وقت جنیوا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں ان کے نفاذ کے طریقہ کار کے ساتھ 28 اقدامات شامل تھے۔ ان میں ،پہل : “کچھ مذہبی نوجوانوں کی انتہا پسندی کے وجوہات اوراسکا علاج ،” پہل : “ہم پرتشدد انتہا پسندی کا سامنا کیسے کریں ؟” ، پہل: “پرتشدد انتہا پسندی کی وجہ سے پسماندگی اور غربت – تشخیص ، تجزیہ اور علاج ،” اور پہل: “مذہبی عبارتوں اور تاریخی حقائق کے ساتھ انتہا پسندانہ مداخلتوں کا علاج ” ، اور دیگر دنیا بھر کے معروف ماہرین کی جانب سے کانفرنس میں کئے غور کئے گئے اہم اقدامات ، وغیرہ کو انہوں تفصیل سے سامعین کے سامنے رکھا ۔
انتہا پسندی کی فطرت
اپنے لیکچر میں ، محترم شیخ عیسیٰ نے انتہا پسندی کی نوعیت کو سمجھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ یہ عام طور پر اعتدال کی حد سے باہر نکلنا ہے ، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اصطلاح کو مختلف انداز سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ اسلامی سیاق میں انتہاپسندی کا مطلب ایسے پر تشدد افکار کو اپنانا جو تشدد یا دہشت گردی کو انجام دے یا دہشت گردی پر ابھارے یا دہشت گردی یا انتہا پسندی کے فکری پناہ گاہ بنائے ، جب کہ انتہا پسندی کی اصطلاح کو اسلامی سیاق و سباق سے الگ کرکے بھی دیکھا جاتا ہے ، خاص طور پر مغرب میں ، جسکا مطلب دائیں بازو کی طرف جھکاؤ والی رائے کی نمائندگی کرنا ہے ، اور کبھی کبھی انتہائی پر تشدد رائے کی نمائندگی مراد ہوتی ہے،
خاص طور پر اگر نام کسی اور وضاحت سے خالی ہو تو اسے تشدد یا دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں ، لیکن کسی بھی ابہام سے بچنے کے لئے ان اختلافات کو سمجھنا ضروری ہے۔
شیخ عیسیٰ نے شدت پسندی کی نوعیت کو سمجھنے سے متعلق ایک اور محور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: “انتہا پسندی کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے ، ہمیں ان وجوہات کو سمجھنا ہوگا جو انتہا پسندوں کو اس کی طرف لے جاتے ہیں۔” پھر انہوں نے ان وجوہات کا جائزہ پیش کیا اور تفصیل بیان کی اور ان پر تبصرہ کیا ، آنجناب نے یہ بھی کہا کہ کوئی مضبوط علمی اور فکری مقابلہ نہ ہونے کی صورت میں پوری دنیا میں انتہاپسندی کافی عرصہ سے اپنے آپ کو فروغ د ے رہی ہے ،اس بات پر زود دیتےہوئے کہ انتہا پسندی نہ ہی خالص سیاسی ڈھانچہ یا فوجی قوت پر قائم ہے بلکہ وہ ایسے نظریہ پر قائم ہے جو ضروری فکری اور علمی مقابلہ کی عدم موجودگی میں خو د کو فروغ دینے میں کامیا ب ہوگئی ، لہذا انتہا پسندی، شعو ر سے عاری مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی تنازعات کے ان علاقوں میں جہاں انکے مواقع زیادہ ہوتے ہیں کچھ نوجوانوں کو اغوا کرنے میں کامیاب رہی ۔
عزت مآب نے یہ بھی کہا کہ : جہاں جہاں میدان خالی تھا وہاں شدت پسندی اپنے آپ کو مزید مظبوط کرنے میں کامیاب رہی اور پھر انتہا پسندوں کی ایک نسل تشکیل پاگئی جو مختلف اقسام کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
شیخ عیسیٰ نے وضاحت کی: دہشت گردی کی انتہا پسندی کو اب اپنی مجازی دنیا کی ٹکنالوجی کے استعمال کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے جس کے ذریعے وہ سرحدوں کو عبور کر اپنے تمام پیغامات آسانی کے ساتھ کہیں بھی پہنچا سکتا ہے۔مزید یہ کہ اس فرضی دنیا نے دہشت گرد انتہا پسندی کا پیسہ پر انحصار کم کردیا ، اس کے علاوہ دہشت گردی خصوصاداعش کی دہشت گردی نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی۔ایک دہشت گردانہ کارروائی جسکو دنیا سن سکے ، خواہ وہ ایک چوری شدہ کار ، ایک سفید ہتھیار ، دہشت گرد کی ملکیت میں آتشیں اسلحہ ، یا ذاتی طور پر بم تیار کرنا کے علاوہ کچھ اور مطلوب نہیں ہے ،لہذا ، یہ ضروری ہے کہ بنیادی طور پر ان کے مخالف خیالات پر شدت پسندی کے نظریات کے خاتمے پر انحصار کیا جائے ، ساتھ انہوں نے اس مخالف محاذآرائی پر کام کرنے کی طرف اشارہ کیا ۔
دینی تشدد کے پیغامات
ڈاکٹر عیسیٰ نے مذہبی تشدد پسندی کے پیغامات کے منفی اثرات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے زور دے کر کہا کہ نوجوانوں کو راغب کرنے میں انتہا پسندی کی اعلی شرح لاشعوری مذہبی جذبے کو استعمال کرنے اور متعدد معاملات خصوصا کچھ سیاسی امور کو استحصال کرنے پر مبنی ہے جو انہیں سازش کے نظریہ پر توجہ مرکوز کرکے ان کو بڑھا رہی ہے۔ رابطہ کے سکریٹری جنرل نے بتایا کہ القاعدہ اور داعش جنگجوؤں کی اکثریت مذہبی جذبات سے پر تھے ، زیادہ تر مذہبی جذبات سے بھرے ہوئے تھے ، کیونکہ ان میں سے اکثر کو دینی علوم میں ماہر نہیں مانا جاتا ہے اور اس پر وہ بحث نہیں کرسکتے ہیں۔ ، اور ان میں سے کچھ کو عام اورغیر مہارتی مذہبی انتہا پسندی کی معلومات ہوسکتی ہے۔ اور اس کے ذریعہ ، وہ اس مذہبی جوش و جذبے کی طرف چلے جس کی تائید القاعدہ اور داعش میڈیا نے کی ، جو جذباتی طور پر اشتعال انگیز مواد سے بھرا ہوا ہے اور تمام سوشل میڈیا کا استحصال کرتا ہے ، جو ان کی سائٹس کو مسلسل اپڈیٹ کرتا رہتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا ، “میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے والے تقریبا5 8٪ (یا ان تنظیموں کے جنگجو) ، خواہ وہ القاعدہ یا داعش کے میں ہوں ، اس مواد سے متاثر ہونے والے نوجوان ہیں جو مذہبی جذبات کے نام پر تیار کئے گئے ہیں ، باقی 15 فیصد ایسے افراد ہیں جو ان تنظیموں کے دانشورانہ نظریہ نگار کے درجہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔اور انمیں بہت ایسے ہوتے ہیں جنکے اندر ابتدا میں معمولی طور پر مذہبی تشدد تھا ، بعد ازاں دینداری میں انکے اندر شدت پسندی آگئی ،جب میں کہتا ہوں دیندار ی تو میں مذہب اور دین داری میں فرق کیساتھ میری مراد ہوتی ہے،اور حقیقت یہ ہیکہ مذہب کی نمائندگی اسلام کرتا ہے اور دینداری یہ ہیکہ اسلام کے نصوص کو سمجھنے کی جو آپکی سطح ہے وہ دینداری ہے ،اور یہ فرق سبھی مذاہب میں ہے ،. بہر حال ، شدت پسندی کے ساتھ جنگ کو حل کرنے میں علمی اور فکری محاذ آرائی اہم ہے ، اگر چہ اس کا اثر صرف عقلی گہرائی میں داخل ہوئے بغیر ہی جذبات سے ہو ، کیوں کہ جذبات ایسے ذرائع سے منسلک ہوتے ہیں جو بظاہر مذہبی متون پر محسوب ہوتے ہیں ، لہذا ہر ایک نظریاتی اور فکری اثر کے تحت ہوتا ہے خواہ اس تاثیر کی سطح مختلف ہو۔
پرفریب نظریہ
عیسیٰ نے سیاسی اسلام کے نظریئے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ دھوکہ دہی والا نظریہ انتہا پسندی کی سب سے خطرناک شکل سمجھا جاتا ہے ، اور یہ وہ ہے جس نے متشدد نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں خصوصا القاعدہ اور داعش کو برآمد کیا۔
آنجناب نے کہا کہ :” یہ صرف میں نہیں کہ رہا ہوں ،بلکہ اس آئیڈیا لوجی کے رہنماؤوں کا کہنا ہے، وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ ایمن ظواہری اور ابو مصعب الزرقاوی مثال کےطو ر پر دونوں مسلم برادر ہڈ کی گود میں پرورش پائے ،لیکن یہ جماعت اپنی مشہور فکری چال کی بنیاد پر دعوی کرتی ہیکہ ہ لوگ اسکے نظریات سے منحرف ہو چکے ہیں ،لیکن اس چال کو متعددقتل کی وہ کارروائیاں جھٹلاتی ہیں جسمیں یہ لوگ ملوث تھے ،اسی طرح انکے عظیم نظریہ سازوں کی کتابیں اسکو جھٹلاتی ہیں ،جیسے سید قطب اور دیگر لوگ۔وہ انکا نہ انکار کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے براءت کرسکتے ہیں، اور اس سے خاص طور پر اس چال بازی کی حقیقت واشگاف ہوتی ہے،اسکے علاوہ اور دیگر کچھ ایسے کام جسمیں یہ پڑے ہیں۔
آنجناب نے واضح کیا کہ یہ جماعت اسلام کے عام اور ہمہ گیر مفہوم کو صرف سیاسی مقاصد ہی میں محصور کرتے ہیں ،جبکہ اسلام کا پیغام دو باتوں پر مرکوز ہوتا ہے: عقائد اور قانون سازی ،اسلام نے مطلق طور پر کبھی بھی حکومت کی شکل پر بحث نہیں کی ہے ،بلکہ اسکو لوگوں کے لئے چھوڑ دیا جسکو وہ عام مفاد اور قانونی بنیا د پر مرکوز انصاف کے اقدار کے مطابق طے کریں ۔
شیخ عیسی نے کہا : ا س انتہاپسند آئیڈیا لوجی نے مسلم معاشروں کو ورغلایا اور ثقافتی ،اور مذہبی تنوع والے ملکوں میں معاشرتی ہم آہنگی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ، نیز قوموں اور لوگوں کے مابین دوستی کی کوششوں کو روکا، اور مذاہب اور ثقافتوں کے ماننے والوں کے مابین مکالمہ کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کی اور اس نظریہ کے رہنماؤں کی تقاریر ، اور اس کے روحانی و سیاسی رہنماؤں کی کتابوں کے بارے میں جاننے سے ، ہمیں بہت خوفناک نظریہ ملتے ہیں ، جو خفیہ کتابیں اور خطبے نہیں ہیں ، بلکہ یہ پھیلے ہوئے ہیں اور ایک سے زیادہ زبانوں میں ہر ایک کے لئے دستیاب ہیں۔ لیکن ایک چیز میں حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ مہذب اقدار کے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں جبکہ ان کی آئینی بنیادیں اور عملی حقیقت مکمل طور پر اسکے خلاف ہیں ، ایک ایسے منظر میں جس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ شخصی طور پر منفرد واقعہ ہے ، یا کم ازکم اس گروہ کے پہلے راؤنڈ میں یہ واضح ہو جاتا ہیکہ یہ کھلی ہوئی چال ہے ۔
تفرقہ اور تضاد
رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل نے اشارہ کیا کہ کئی سال قبل اس نظریے کے قائدین میں سے کسی ایک کے ساتھ اس تضاد اور تناقض کے بارے میں بات چیت ہوئی ہے۔ اس نے کہا ” ان کتابوں میں موجود افکار سے وہ اتفاق نہیں رکھتے ” چنانچہ ان سے کہا گیا کہ آپ اسکا جواب کسی لکچر یا کتاب کی صورت میں دے سکتے ہیں تاکہ حقیقیت واضح ہو ؟ اس نے کہا ، اس طرح سے معاملات نہیں سنبھالے جاتے ہیں۔ آخر میں ، پتہ چلا کہ وہ دھوکہ دہی پر عمل پیرا ہے۔
موصوف نے مزید کہا کہ یہی وہ جماعت ہے جس نے اپنے انتہا پسندی والے ڈھانچے سے باہر ہر چیز کے اندر منافرت اور شیطنت کے تصورات کو داخل کیا ہے ، خواہ وہ اسلامی دائرے کے اندر ہو یا اس سے باہر ، خاص طور پر مغربی دنیا میں ، جیسا کہ اس نے مسلم نوجوانوں کے ضمیر میں سب سے نفرت کو بھر دیا ہے ، اور وہ بات چیت اور تہذیبوں کے اتحاد کے خلاف ہیں ، وہ مشترکہ تعلقات کے دائروں کو نہیں جانتے ، بلکہ صرف اختلافات ، ٹکراؤ اور کشمکش کے دائروں کو جانتے ہیں ۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی بھی ایسے معاملے میں جسکا استغلال کیا جاسکتا ہو اسلامی جذبات کو بھڑکایا ، اور وہ بات چیت ، حکمت عملی اور معاملات میں انصاف کرنا جانتے ہی نہیں ہیں ، جبکہ وہ ایسے چالاک طریقہ کا سہارا لیتے ہیں جس کا انحصار ایسے کارندوں پر ہو جنکا کا کوئی واضح بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا ۔ ،تاکہ الزامات عائدہ ہونے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی ان انفرادی کارندوں کے خلاف محدود ہو ، اور بطور جماعت یا تنظیم انکا محاسبہ نہ کیا جائے ۔
موصوف نے مزید یہ کہا کہ : اس جماعت کی موجودہ حالت انکے قائدین کی فکروں میں تضاد کے واشگاف ہونے کے بعد نازک ہے ، اور خاص طور پر جو انہوں نے مسلم نوجوانوں کو بر انگیختہ کرکے سیاسی لڑائی کی جگہوں پر دھیکل دیا ،چنانچہ دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئیں ،جیسے قاعدہ اور داعش کے ساتھ ہوا ،اور اس با ت کے یقینی ہوجانے کے بعد اس جماعت کے اہداف القاعدہ اور داعش کے اسٹرٹیجک اہداف سے مختلف نہیں ہے،بلکہ فرق صرف حکمت عملی میں ہے،اس جماعت کے قائدین کی باتیں جو یہ اپنے پیروکاروں میں سے بااثر نوجوانوں کے ساتھ درپردہ کرتے ہیں ،انکی ان باتوں سے جو یہ علی الاعلان عام لوگوں سے اور خاص طور پر ملاقاتوں اور سرکاری کانفرنسوں میں کرتے ہیں مختلف ہوتی ہیں ۔
موصوف نے عندیہ دیا کہ آج عالم اسلام میں اور متعدد مسلم اقلیتی ممالک میں اخوان المسلمین کی سربراہی میں فروغ دیئے جانے والے نظریہ سیاسیات کے خطرے سے بہت زیادہ بیداری ہے ، اسلام اور مسلمانوں کی ساکھ کے خلاف جس کے منفی اثرات سامنے آچکے ہیں . یہ نفرت انگیزی اور معاشروں میں انکو الگ تھلگ کیا جانا ظاہر ہوا ، اپنے قومی معاشروں میں جہاں اسکے خلاف وہ کررہے ہیں خواہ وہ اسلامی دنیا کے اندر ہو یا باہر ۔
مذہبی فرقوں میں تفرقہ
لیکچر کے دوران عالی جناب شیخ عیسیٰ نے مذہبی فرقوں کے درمیان جو شدید تفرقہ ہے اس پر بھی بات کی ، جسکی وجہ سے کچھ معاملوں میں فرقہ واریت پروان چڑھی ،اور وہ سخت تشدد تک جا پہونچی ، اس کے علاوہ ، اسلامی دنیا اور اقلیتی ممالک میں مسلم نوجوانوں کی صحیح مذہبی اقدار کے بارے میں ناکافی آگاہی ، اور جامع شہریت کی اقدار کو فروغ دینے میں ناکامی جو فرق ، تنوع اور تکثیریت کے ناگزیر ہونے پر یقین رکھتے ہیں ، ان سب نے ان کی علمی اور فکری قلعہ کو کمزور کیا ، اور اس طرح پرتشدد انتہا پسندی اور دہشت گرد گروہ ان پر آسانی کے ساتھ اثر انداز ہوتے چلے گئے ۔
اس کے بعد موصوف نے پوری دنیا میں پرتشدد اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے تفصیل سے بات کی ، اور کہا: متشدد انتہا پسندی کے خلاف جنگ کو نظریاتی طور پر شکست دینے پر زیادہ انحصار کیا جانا چاہئے ، اور اس سے قطع نظر کہ اس کا مقابلہ عسکری طور پر کتنا ہی کیا گیا ہو اور اس کے خلاف فتوحات حاصل ہوئی ہو۔ لیکن یہ نظریہ باقی رہیگا ۔
موصوف نے اشارہ کیا کہ آئی ایس آئی ایس کے خلاف بین الاقوامی اتحاد نے ایک بہت ہی کامیاب فوجی محاذ آرائی کی ہے ، جس میں امریکہ کے زیر قیادت 83 ممالک نے کی شرکت ہے۔
انہوں نے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی محاذ آرائی بہت اہم ہے ، لیکن ان میں سب سے اہم فکری محاذ آرائی ہے ، جو دو مراحل سے گزرتی ہے: پہلا: احتیاطی اور مضبوطی ، جو خاندان ، اسکول ، مذہبی اور معاشرتی اثر و رسوخ کے پلیٹ فارم سے شروع ہوتی ، ان سب کے علاوہ ان حالات کا جائزہ لینا جو تشدد اور دہشت گردی کی طرف نوجوانوں کے مائل ہونے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوسرا: علاج جو زیادہ تر شدت پسندی کے نظریے کو اسکے تمام محوروں پر مضبوط علمی ، فکری اور معاشرتی گفتگو کے ذریعے ختم کرنے پر مرکوز ہو ۔اس کے لئے ایک انتظامی منصوبے کی ضرورت ہے جس میں نتائج کےمستقل جائزہ کے ساتھ اقدامات ، پروگرام اور مستقل تشخیص شامل ہیں۔
شیخ عیسی ٰ نے اپنی گفتگو کے اصل حصہ میں اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ مذہبی اعتدال کی اقدار کو راسخ کرنے کے میدان میں مملکت سعودی عرب ایک الہامی عالمی پلیٹ فارم ہے ،اور کہا کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران ، جو دسمبر 2015 عیسوی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کے بعد شروع ہوا تھا ، جس میں تین محور شامل تھے: فوجی ، علمی ، میڈیا ، اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام ،
اس تاریخ سے ، خاص طور پر اسلامی ممالک میں ، دہشت گردی کی روک تھام کے میدان میں ایک اہم بین الاقوامی موڑ آیا ۔ اس کے بعد متعدد عالمی پلیٹ فارمز کا قیام عمل میں لایا گیا جو انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرنے کے لئے تھا، “اعتدال ” بین الاقوامی مرکز کے ساتھ ہی یہاں “فکری جنگ” کا مرکز ہے جو شدت پسند نظریے کی بیخ کنی کا کام کرتا ہے۔
محترم ڈاکٹر عیسیٰ نے واضح کیا کہ مئی 2019 ء میں رابطہ عالم اسلامی کے زیرقیادت مکہ مکرمہ دستاویز کانفرنس میں مفتیوں اور دنیا کے اعلی ترین علماء کرام کااتفاق ان خیالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط اقدام سمجھا جاتا ہے۔ جہاں 139 ممالک کے 1،200 سے زائد مفتیان اور اسکالرز نے ایک بے مثال تاریخی اجلاس میں اور بغیر کسی استثناء کے اسلامی فرقوں اور مسالک کے تمام پیروکاروں (27 فرقوں اور مسالک ) کی موجودگی میں ، اس دستاویز کو جاری کرنے کے لئے اتفاق کیا ، جو روشن اسلامی فکر کے لئے روڈ میپ کے مانند ہے ، اس اہم تاریخی اجتماعی کام کو انتہا پسندی کے خلاف ایک کاری ضرب شمار کیا جاتا ہے ۔
اس کے بعد ، اور لیکچر کے اوقات کے دوسرے حصے میں ، موصوف نے حاضرین کے سوالوں کے جوابات دیئے ، جو لیکچر کے عنوان اور متعدد اہم اور متعلقہ عنوانات پر مشتمل تھے ۔